Friday, November 21, 2014

صدمہ کشمیر اور راہ نجات

تحریر:محمد فاروق رحمانی
(mfr_isb@outlook.com)
اس حقیقت کے باوجود کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کا سب سے پہلا اور پرانا مسئلہ ہے اور اس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری اور غیر سرکاری مذاکرات کے متعدد دور چلے، دونوں ملکوں میں اس مسئلے پر جنگیں بھی ہوئیں، کئی سال سے اس تنازعے کے نام پر دونوں ملکوں کے درمیان’ امن آشا ‘کی ایک تحریک بھی اخبار نویسوں اور سفارتکاروں کی کوششوں سے اخباری صفحات اور سیمیناروں اور مختلف فورموں کے ذریعے جاری ہے جسکے ذریعے بھارت اور پاکستان کے تعلقا ت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جاتی ہے لیکن کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کے امکانات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ تنازعہ جنگ کے ذریعے حل ہو سکا اور نہ مذاکرات کے ذریعے اس کی گھتی سلجھ سکی ہے۔ اب گزشتہ چند مہینوں میں پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف نے براہ راست کشمیریوں کے حق آزادی اور حق خود ارادیت پر زور دیا اور وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے جنرل اسمبلی کے گزشتہ سیشن میں اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے سلامتی کونسل کی متفقہ قرار دادوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی ۔ علاوہ ازیں ورکنگ باؤنڈری اور ریاستی متنازعہ لائن آف کنٹرول پر پاکستان اور بھارت کے درمیان گولہ باری کے واقعات میں اضافہ ہو اور دونوں طرف عام لوگ بھی مارے جا چکے ہیں۔ غرض پاکستان کی سرحدوں اور جموں و کشمیر کے اندر ہندوستان کا رویہ انتہائی جارحانہ بن گیا ہے۔

ستمبر 2014سے کشمیر کے عوام قیامت خیز سیلاب کی برپا کردہ تباہ کاریوں کو رو رہے ہیں جس نے ایک خوشحال کشمیری سماج کو بری طرح افلاس ، بیماری اور بے روزگاری سے متاثر کیا ہے ۔ لیکن بھارت نے کسی بیرونی ملک یا عالمی ادارے کو ریاست کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی ۔ خود ہندوستان نے بھی کوئی تسلی بخش قدم نہیں اٹھایا اس کے برعکس اب وہ کشمیریوں کی بے بسی ، پریشانی اور محتاجی کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ سیلاب کے مارے کشمیری عوام تو بے کراں خلا اور گہرے نیلے سمندر کے درمیان معلق تھے ہی اور امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ بین الاقوامی برادری کو انکے مصائب دورکرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن بھارت اور حریت دشمن جماعتوں نے ان پر نام نہاد انتخابات ٹھونس دیے جن کا آغاز 25نومبر کو ہو گا۔ چناچہ پولیس نے ریاست کے مقبوضہ خطے میں مار دھاڑ ،خانہ تلاشیوں اور گرفتاریوں کے اقدامات اٹھائے ہیں جو ہر لحاظ سے ظالمانہ ہیں اور سیلاب زدگان کی ریلیف مہم میں رضا کاروں کے راستے میں حائل ہو گئے ہیں۔
انسان کی سماجی او ر سیاسی تاریخ اس بات کی غماز ہے کہ کوئی بھی سماج طالع آزمائی کرنے والے لیڈروں اور سیاست دانوں سے پاک نہیں رہا ہے ۔ کشمیر میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں ۔ اس لیے ہندوستان کو مقبوضہ خطے میں اسمبلی انتخابات کا ناٹک دکھانے کیلئے بہت سارے کٹھ پتلی میسر ہیں جو سیلاب کے ماروں کی از سر بحالی کا راستہ مسدود کریں گے اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں کشمیریوں کے سواد اعظم کے موقف کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ہندوستان نے ابتدا سے ہی جموں و کشمیر کے اندار اور باہر مقامی اور عالمی سطح پر جاسوسوں اور گماشتوں کا ایک وسیع جال بچھایا ہے جو بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے سرکلوں اور اداروں میں حق خود ارادیت کی تحریک کے خلاف شاطرانہ کھیل تماشہ دکھانے میں سرگرم ہیں لیکن صدمہ یہ ہے کہ آزاد مسلم دنیا میں بھی حکومتوں کا غیر جمہوری طرز حکمرانی اور دہشت گردی کی عالمگیر لہر تحریک آزادی کشمیر کیلئے ضرر رسان ثابت ہو رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ہندوستان اپنی افرادی قوت اور وسیع معاشی منڈی دکھا کر بہت سارے مسلم ممالک کو اپنے زیر اثر لا چکا ہے ماضی اور حال سے تعلق رکھنے والے اور بھی کئی اسباب ہیں جنہوں نے مسلم دنیا کو کشمیرپر زبانی جمع خرچ کے بغیر کوئی ٹھوس اور اثر انداز کردا ر اداکرنے سے روکے رکھا ہے ۔ یو این اواور اس پر سے سب سے زیادہ اثر جمانے والے مغربی ممالک اورامریکہ کافی عرصہ سے کشمیر کی قرار دادوں پر اپنے موقف سے مراجعت کر چکے تھے ، چین بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تصورات میں تبدیلی لا چکا ہے ، وہ کشمیر کا موازنہ ہانگ کانگ کے ساتھ کر رہا ہے اور اسکو حل کرنے کیلئے طویل مدت تجارتی تعلقات کے قیام میں یقین رکھتا ہے لیکن او آئی سی جیسا ادارہ بھی اس پرفعال نہیں ہے ۔ یہ عالم گیر مسلم تنظیم بادشاہوں ، آمریتوں اور جمہورتیوں کی یکساں نمائندگی کرتی ہے لیکن کشمیراور فلسطین کے محکوم اور مجبور مسلمانوں کی مکمل نجات کے لیے اس کے ہاں کوئی فوری نظریہ اور طرز عمل نہیں ہے، جس سے بھارت اور اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کا توڑ ہوتا۔ اور زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ پاکستان میں جب سے پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کے کاروبار کا آزادانہ سرمایہ دارانہ نظام قائم ہو گیا، میڈیا بڑے سرمانہ داروں کے اشاروں پر ناچتا ہے ، ریٹنگ اس کا واحد مقصدبن گیا ہے اور قومی مقاصد کا حصول نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ کشمیر بھی اسی المناک حادثے کا شکار ہوا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی کشمیر کے بارے میں جاندار ، بلا مبالغہ خبروں اور تعمیری تبصروں سے محروم ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں یہ معیار اور بھی زیادہ پست ہے ۔ یہاں سب سے زیادہ بیانات حکمرانوں اور سیاست دانوں کے پڑھنے کو ملتے ہیں جو مبالغہ آمیزی سے بھر پور اشتہاری دکھائی دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی تنازعہ کشمیر کے ساتھ یہی خشر ہو رہا ہے۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی مسلمانوں کی اس کیفیت پر کافی پہلے ماتم کیا تھا

حقیقت خرافات میں کھو گئی۔۔۔یہ امت روایات میں کھو گئی
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے۔۔۔مسلمان نہیں ، راکھ کا ڈھیر ہے

بہر صورت ابلاغ عامہ کی جدت ،خاص کر انٹرنیٹ کے روز افزوں استعال نے خواص و عوام پر نئی ذمہ داریاں ڈالی ہیں کیونکہ اس جدت نے دنیاوی رابطوں اور معلومات میں کشش پیدا کی ہے اور حیرت انگیز اضافہ بھی ۔ قطع نظر اس کے کہ یہ سب کچھ مخزن علم کا متبادل نہیں ہے اور حصول علم کیلئے محنت شاقہ ، خلوص و لگن اور مطالعہ ناگزیر ہے۔ جموں وکشمیر کی آزادی کی سیاسی تحریک اہل کشمیر کی غیر معمولی سیاسی بیداری ، قربانی اور انتھک جد وجہد سے عروج پر پہنج گئی تاہم تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی ہے۔ تحریک آزادی کے ساتھ پاکستان ابتدا سے ہی وابستہ چلا آرہا ہے ۔ اس سیاسی آزادی کا سب سے بڑا فیض کشمیریوں کو حاصل ہو گاکیونکہ وہی مدت سے ظلم و جبر کی زندگی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کو اس سے کچھ کم ثمر حاصل نہیں ہوگا ۔ یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں کہ کشمیریوں میں ہندونستان کے تسلط سے آزاد ہونے کا جذبہ روز بروز تیز اور ناقابل تسخیر بنتا جا رہا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان اور آزاد کشمیر میں یہ سرد ہونے لگا ہے اور یہ بے التفاتی ملک کی اشرافیہ اور سیاست دانوں میں زیادہ نظر آتی ہے ۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے لیکن ان کے اہل قلم کی بعض نگارشات اور سیاست دانوں کی سرگرمیاں اس کی غمازی کرتی ہیں۔ عوام الناس مہنگائی اور بے روزگاری کے کوہ گران کے نیچے دب گئے ہیں اس لیے ان سے کیا گلہ۔
مسئلہ کشمیر کے تین فریقوں کے درمیان بنیادی وجہ نزاع کشمیریوں کے حق خود ارادیت سے محرومی اور کشمیرمیں ظلم و استبداد کا لمبا دور ہے ۔ حق خود ارادیت وہ اصول ہے جس کی بنیاد پر ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا ایکٹ مجریہ 1947وجود میں آگیا تھا۔ ہندوستان کے ساتھ وجہ نزاع یہ ہے کہ وہ ایک جھوٹی بات پر اڑا ہے کہ اور کہتا ہے کہ کشمیر میں انتخابات ہی رائے شماری ہے اور یہ کہ الحاق اٹوٹ ہے جب کہ پاکستانی اور کشمیری اس بات پر ہم آہنگ ہیں کہ ریاست کا کوئی الحاق نہیں ہوا اور صرف حق خود ارایت کے ذریعے سے ہی کشمیری عوام اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔یہ بات عالمی برادری نے نظر انداز کی ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے جموں ڈیژن میں 1947کے موسم گرما سے لیکر موسم سرما تک مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج ، معاون فورسز اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے بلوائیوں اور دہشت گردوں نے جس منظم سفاکی کیساتھ جموں کے پانچ لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا تھااس کے بعد بھارت کا نام نہاد الحاق کرنے کا دعویٰ اور بھی زیادہ مضحکہ خیز اورشرمناک بن جاتا ہے۔اگر جموں و کشمیر کے عوام نے اپنی مرضی سے بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھاتو جموں میں مسلمانوں کی یوں وسیع پیمانے پر نسل کشی کیوں کی گئی ؟ہندوستان اپنی آزادی اور سیکولر جمہوریت کے ماتھے سے خون کے یہ دھبے ہرگز نہیں دھو سکے گا۔ اور کشمیری اپنی سرزمین پر اس کا خون آلود تسلط تسلیم نہیں کر سکتے ۔ یہ ایک صائب اور مضبوط موقف ہے جس کے ارد گرد کشمیری عوام کی جد وجہد آزادی 1947سے گھوم رہی ہے۔
پس یہ ثابت ہوتا ہے کہ فکر مندی درحقیقت کشمیریوں اور پاکستانیوں کی ہے ۔ کیونکہ دونوں کا موقف اور مفاد ایک جیسا ہے ۔ یہ بات ہے کہ بھارت گاہے گاہے آزاد کشمیر کے بارے میں بھی دھمکیاں دیتا رہتا ہے لیکن اس نے 1947میں انگریز حکمرانوں کی پشت پناہی سے کچھ بھی نہیں کھویاتھا ۔ ہندوستان نے جموں ، لداح اور کرگل پر بھی قبضہ کر لیا اور اسکے ساتھ کشمیرکی خوبصورت وادی کا تاج بھی چھین کر اپنے سر پر رکھا۔ کشمیری آزادی سے محروم ہو گئے اور پاکستان تقسیم کے مقاصد اور حقوق سے محروم ہو کر خطرات کے گرداب میں پھنس گیا۔ اس لیے پاکستان کا فرض بنتا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے فوری حل کیلئے ہر وقت ہر آن مستعد رہتا اور ہندوستان کے راستے میں عملی مشکلات پیدا کرتا لیکن ہندوستان نے بین الاقوامی سطح پر ایک ایسی سیاسی پالیسی اورحکمت عملی اپنائی جس سے کشمیر کاز کمزور ہوتا گیا اور کشمیر کے منصفانہ فیصلے کے حق میں مسلمہ عالمی قرار دادیں طاق نسیاں کر دی گئیں۔ یہ ایک دو طرفہ مسئلہ بنا دیا گیا اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لکھے گئے معاہدوں نے حق خود ارادیت کی جگہ سنبھالی ۔ آج ایک پرنسپل اور متاثرہ پارٹی کی حیثیت سے کشمیریوں کا رول ہندوستان اور پاکستان کے درمیان درجہ صفر تک گر گیا ہے بلکہ ہندوستان کے زیر تسلط جموں وکشمیر کے حریت پسندوں کا کوئی کردار بین الاقوامی سطح پر زندہ نہیں رکھا گیا ہے۔ کشمیر کی حقیقی حریت پسند قیادت کو عالمی میدان میں نہ دیکھ کر بین الاقوامی برادری کی دلچسپیاں بھی دم توڑ رہی ہیں۔اس کمی کو جس طرح پُر کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اس کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا اور بھارت کیلئے کوئی چلینج پیدا نہیں ہوتا ۔ آزاد کشمیر اور اسکے سیاست دان اس وقت تک اپنی سرگرمیوں سے ریاست کے دو تہائی رقبے پر بھارتی تسلط کے خلاف عالمی برادری کی ہمدردیاں جیت سکتے نہ بھارت کو سوچنے پر مجبور کر سکتے جب تک بیرونی دنیا میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کے سیاسی اختلافات ، کھینچا تانی اور رسہ کشی کشمیر کی آزادی پر حاوی رہیں گے ۔جب تک نہ کشمیر کی آزادی کیلئے تمام تر اقدامات پاکستان کے اداروں ، مقبوضہ اور آزاد کشمیر کی سیاسی قیادتوں کے باہمی گہرے مشورے کے تحت اٹھیں گے ، پاکستان اقوام متحدہ میں کشمیر کے حق میں کوئی ہلچل اور فکر مندی پیدا نہیں کر سکے گا۔
جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کی آبیاری اور قوت مزاحمت کے ساتھ سا تھ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے خد و خال اور نقوش کا گہرا اور نمایاں ہونا بھی بہت اہم ہے۔ جب یہی سوال پاکستان میں دفتر خارجہ کے ذمہ داروں یا سفارتکاروں سے کیا جاتا ہے تو وہ تحفظات رکھتے ہیں یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ پاکستان میں تنازعہ کشمیر کی طویل تاریخ اور خارجہ پالیسی اسی حال میں گزر گئی یہاں تک کہ ہندوستان میں ایک ایسی سخت گیر ہندو بنیاد پرست قیادت بر سر اقتدار آگئی جس نے اب اس مسئلے پر پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے کی روایات بھی توڑ دالیں ۔ لیکن یہی پاکستان کی کشمیر پر خارجہ پالیسی کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ایک سخت گیر نظریاتی ہندو حکومت پر مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت واضح کر نے میں کامیاب ہو جائے۔
پاکستان کے ایک سابق سفیر برائے امریکہ ، ہندوستان اور چین اور عراق اور سوڈان میں یو این مشن کے سربراہ اشرف جہانگیر قاضی نے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی پر ایک مقالے میں ’’ سیاسی یتیم ‘‘ کا فقرہ چست کر دیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں’’پاکستان کی خارجہ پالسی کیسے ایک غیر فعالیت ماحول میں کام کرتی ہے۔ ؟ فارن آفس یا فارن سروس ملک کے سب سے عمدہ ادارے ہیں لیکن انہیں فارن پالیسی کی ڈویلپمنٹ اور ڈائریکشن میں زبان نہیں ہے(Little Say)ہے۔ سوائے اسکے کہ وہ مثالی پیشہ ورانہ مہارت اور وکالت کے ساتھ ان پالیسیوں کو چلائے جن کے بنانے میں دفتر خارجہ کو مارجنل اونرشپ ہے ۔کیا اس صورت حال کو بدلنا چاہیے ؟لازمی طور پر۔ ‘‘ فارن پالیسی کے ماہر نے ان حالات کی ذمہ داری عوام کے نمائندوں پر ڈالی ہے جو بقول انکے سیاست کے شعور سے عاری ہیں۔( ڈان 21اکتوبر2014 ( ایک اور مقالے میں اشرف جہانگیر قاضی نے مشورہ دیا ہے کہ’’ مسئلہ کشمیر کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257کو فعال بنایا جائے اور اسکے مکمل فوائد کا دائرہ اٹانومی کی شکل میں آزاد کشمیر تک بڑھایا جائے، اس سے وزیر اعظم نریندرمودی کے پیراڈائم شفٹ اور اقتدار اور ادغام کے منصوبوں کا بھی توڑ ہو سکتا ہے۔ ‘‘( ڈان 23ستمبر2014 (
بحرحال جنوبی ایشیامیں جموں وکشمیر کو سیاسی ، تاریخی اور اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ حق خود ارادیت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے کسی راستے کی طرف نہ دیکھے جس طرح کہ گزشتہ 14برسوں میں کیا جاتا رہا۔ایک توانا موقف اور شستہ طریقہ کار، مذاکرات اور حل کی طرف بڑھنے کا خاصا ہو لیکن کسی بھی قیمت پر کشمیریوں کی حریت پسند قیادت کی سوچ کو ثانوی حیثیت نہ دی جائے۔ اسکے ساتھ یہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کے قومی ادارے اور قومی سلامتی ادارہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مدت سے درپیش مسئلہ کشمیر پر دل و دماغ سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کریں اور مسلمہ کشمیری حریت پسند قیادت کی صائب رائے کواہمیت دیں۔ یہ جا ن لیں کہ مسئلہ سطح بینی کا نہیں اور کاسمیٹک اقدامات سے حل نہیں ہو گا۔
پاکستان اور کشمیر کو مل کر سوچنا ہو گا اور فیصلہ کرنا ہوگا کہ کشمیری عوام کے لیے حق خود ارادیت اور آزادی کا حصول غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جو کسی مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اسے قومی سلامتی کا ایک بنیادی اور مرکزی نکتہ قرار دینا ہو گا۔ ہر امکانی سطح پر وہ تمام اقدامات اٹھانے ہونگے جن سے تاخیر کا دور ختم ہو اور آزادی کشمیر کی منزل قریب سے قریب تر ہوسکے۔ ضروری اقدامات، قومی ، علاقائی اور عالمی سطح پر اٹھانا پاکستان کے لیے بے حداہم ہے۔ اس انتباہ کو نظر میں رکھناضروری ہے۔
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
نوٹ: مقالہ نگار جموں و کشمیر پیپلز فریڈم لیگ کے چئیرمین ہیں۔
ٓDated:21-11-2014

No comments:

Post a Comment